Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 19

جہانگیر اپنے کمرے میں بیٹھا سوچ رہا تھا اور سیگرٹ کا دھوا اڑا رہا تھا ۔)

ان لوگوں سے یہ کام نہیں ہوگا اور موصب اتنی آسانی سے اسے چھوڑے گا نہیں ۔مجھے اب کچھ اور ہی کرنا ہوگا ۔۔۔تصبیہا تمہیں میرے پاس آنا ہی ہوگا ۔ تم صرف میری ہو میں تمہیں اس ساتھ رہنے نہیں دوں گا اس کے لیے چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے ۔۔۔۔(جہانگیر خود سے مخاطب تھا ۔اس کہ ذہن میں کچھ غلط چل رہا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح احمد صاصب لون میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جب کو گیٹ پر کسی سے بات کرتے دیکھا ۔ انھوں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ پولیس آئی ہے ۔۔۔ احمد صاحب حیران بھی تھے اور پریشان بھی کہ پولیس کا کیا کام وہ بھی ان کہ گھر پہ ۔برحال انھوں نے اس سے کہا کہ بولاو ان لوگوں کو۔۔وہ کل تین لوگ تھے ۔احمد صاحب نے انھیں بیٹھایا اور آنے کی وجہ پوچھی تو وہ بولے )

سر ہمیں موصب سے ملنا ہے ۔۔(ان کہ ایک افسر نے کہا)

موصب سے کیوں ۔کیا کام ہے اس سے ( وہ ابھی بھی حیران تھے کہ موصب سے کیا کام ہوگا انھیں )

سر ان کہ گرفتاری کہ راونٹ ہیں ہمارے پاس ۔۔۔(اس نے تو جیسے بوم ہی پھور دیا)

کیا ؟ مگر کیوں ؟ ( ان کی پریشانی ان کہ چہرے سے صاف تھی)

پہلے آپ انھیں بولاہیں پھر بتاتا ہوں ۔(اس نے کہا)

پہلے مجھے بتاہیں ہوا کیا ہے ۔۔۔(ان کی آواز اب سخت ہوگئی)

سر پلیز تاون کریں ہمارے ساتھ تو اچھا ہوگا ۔۔(اس آفسر نے کہ لہجے کو سنتے ہوئے کہا)

احمد صاحب نے ایک ملازمہ کو کہا کہ موصب کو بلاکر لاو ۔۔۔ ان کی آواز سے ان کی بیگم اور شاہ بھی آگئے تھے اور پولیس کو دیکھ کر حیران تھے ۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دروازے آواز پر موصب کی آنکھ کھلی ۔ تصبیہا جو کہ اس سینے پر سر رکھے سورہی تھی اس نے تصبیہا کو تکیے پر اس کا سر رکھا ۔۔دروازہ مسلسل بج رہا تھا تو تصببیہا کی بھی آنکھ کھل گئی ۔۔۔موصب نے غصے میں دروازہ کھولا)

کیا مصیبت آگئی ہے جو گیٹ توڑ رہی ہو؟(موصب جو کہ نیند میں تھا اور غصے میں بھی)

آپ کو نیچے پڑے صاحب بولا رہے ہیں۔۔نیچے پولیس آئی ہے ۔۔(ملازمہ نے سہمے ہوئے لہجے میں اسے بتایا )

پولیس کیوں آئی ہے ؟ (موصب نے اس نے پوچھا )

پتا نہیں جی (اس نے جواب دیا)

اچھا آرہا ہوں ۔۔(موصب نے جواب دیا اور دروازہ بند کردیا )+

پولیس کیوں آئی ہے ؟(تصبیہا جو کہ اٹھ گئی تھی اور ملازمہ کی باتیں بھی سن چکی تھی )

پتا نہیں نیچے جتاوگا تو پتا چلے گا (اس کہا اور واشروم چلا گیا)

تصبیہا کو گبراہٹ ہورہی تھی ۔موصب نیچے گیا تو وہ بی اس کہ پیچھے چل دی ۔۔وہاں جا کر موصب ان سے ملا اور ان کہ آنے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ وہ اسے گرفتار کرنے آئے ہیں ۔۔۔موصب نے وجہ پوچھی )

میں پوچھ سکتا ہوں کہ کس لیے آپ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں ؟(موصب کہ شہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی)

سر ہمیں پتا چلا ہے کہ آپ کہ ہوسپیٹل میں جسم کہ حصے بیچنے کا کاروبار چلتا ہے ،جس میں آپ بھی شامل ہیں ۔(اس آفسر نے گرفتاری کی وجہ بتائی)

وہاں کھڑے ہر شخص کو سانپ سونگ گیا۔۔موصب بولا)

کیا ثبوت ہے اس بات کا ؟(موسب نے ان سے ثبوت منگا)

سر ہمارے پاس ثبوت بھی ہے اور گواہ بھی ۔ آپ چلیں ہمارے ساتھ۔(انھوں نے کہا)

نہیں میرا بیٹا ایسا نہیں کرسکتا آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔(موصب کی موم بولیں جو مسلسل رو رہیں تھی )

تصبیہا شاکٹ تھی ،شاہ بھی حیران تھا ۔۔ْْ)

یہ جھوٹ ہے میں نے میں ایسا گھٹیا کام نہیں کرتا ۔۔۔(موصب نے انھیں سمجھانا چاہا مگر ان لوگوں نے ایک نہیں سونی اور اس کہ ہاتھ میں ہتکڑی لگانے کو کہا تو ایک آفسر نے اسے ہتکڑی لگائی ۔تصبیہا بولی)

نہیں آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے موصب ایسا نہیں کرسکتے ،پلیز انھیں نا جاہیں ۔۔۔۔(تصبیہا کہ اس آفسر سے کہا انسو اس کی آنکھ سے بہ رہے تھے ۔ موصب مڑا اور تصبیہا کا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولا)

پریشان نہیں ہو میں جلدی آجاوں گا اور رونا نہیں ۔۔(یہ کہتے ہوئے اس کہ تصبیہا کہ آنسو صاف کیے ۔۔۔اپنے ڈیڈ سے ملا ۔شاہ سے بھی جس کی آنکھیں بھی نم تھیں ۔ موصب نے ایک نظر اپنی موم پر ڈالی تو وہ رو رہی تھیں موصب ان کہ پاس گیا اور بولا)

پلیز پریشان مت ہوں ،بس میرے لیے دعا کیجے گا ۔(موصب نے پہلی مرتبہ ان سے ایسے بات کی تھی ان کہ رونے میں اور روانی آگئی انھوں موصب کا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کا ماتھا چوما اور دعا دی ۔۔موصب جانے لگا تو تصبیہا اس کہ پیچھے بھاگی تو شاہ نے اس ہاتھ پکڑ لیا ۔)

شاہ وہ جارہا ہے اسے روکو ۔۔۔بابا آپ کچھ کرتے کیوں نہیں ہیں ۔۔(تصبیہا نے روتے ہوئے احمد صاحب سے کہا)

میں وکیل سے بات کرتا ہوں تم پریشان مت ہو۔۔۔(انھوں نے اسے سمجھایا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصبیہا کا رو رو کر برا حال تھا ۔موصب کو گئے 24 گھنٹے ہوگئے تھے۔احمد صاحب نے بڑےسے بڑےوکیل سے بات کی تھی ۔سب کوشیش میں لگے تھے مگر کچھ بھی نہیں ہوراہا تھا ۔ سعد اور فیروز بھی کراچی آگئے تھے۔

تصبیہا نماز پڑھ کر اٹھی تو اس کا موبائل بج رہا تھا ۔ اس نے دیکھا تو کوئی انجان نمبر تھا اس نے اٹھایا )

ہیلو۔۔۔۔(اس کی آواز رونے کی وجہ سے بھاری تھی )

تم رو رہی ہو؟(دوسری طرف جو بھی تھا اس کی آواز سنتے ہی سمجھ گیا تھا )

کون ؟ (تصبیہا نہیں پہچانی کہ وہ کون ہے)

تم اس کہ لیے رو رہی ہو یہ مجھ سے برداشت نہیں ہورہا ۔ (مقابل کو برا لگا تھا اس کا موصب کہ لیے رانا)

جہانگیر؟؟؟؟؟(تصبیہا کو اس کا لہجا سمجھ آگیا تھا )

شکر ہے کہ تم نے مجھے پہچان لیا۔(اپنا نام سن کر وہ خوش ہوگیا تھا)

کیوں فون کیا ہے ؟(تصبیہا نے سختی سے پوچھا)

تم سے ملنا چاہتا ہوں (اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔تصبیہا نے غصۓ سے کال کاٹ دی اور موبائل بیڈ پر بھنک دیا اور باہر چلی گئی۔)

وہ نیچے آئی تو شاہ کو اندر آتے دیکھا ۔وہ فورا اس کہ پاس گئی ۔)

کیا ہوا شاہ ؟ کیا کہا وکیل نے ؟ موصب واپس تو آجائے گے نا ؟ بولو ؟ (تصبیہا نے تڑپ کر پوچھا ،شاہ نظریں جھکائے کھڑا تھا )

تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ہو؟ (اس نے شاہ جھنجوڑ دیا)

کیا بولوں آپی کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا ہے ۔جس وکیل سے بات کرتے ہیں پہلے تو وہ راضی ہوجاتے ہیں مگر کچھ گھنٹے بعد منا کردیتے ہیں ۔۔۔۔مجھے تو لگ رہا ہے کوئی بھائی کو پھسارہا ہے ۔۔(شاہ نے اسے ساری بات بتائی)

تصبیہا سر تھام کر بیٹھ گئے مگر اچانک اس کہ دماغ میں جہانگیر کہ بولے الفاظ گونجے وہ فورا اٹھی اور اپنے کمرے میں گئی ۔موبائل کھلا تو اس میں جہانگیر کی کالس تھیں ۔ابھی وہ دیکھ ہی رہی تھی کہ دوبارا کال آنے لگی اس نے ففورا پک کی )

تم نے کیا ہے یہ سب ؟(تصبیہا نے غصۓ سے پوچھا )

ہاں (جواب بھی ڈھیٹائی سے آیا۔)

کیوں ؟(وہ چیخی)

تم کل مجھ سے ملو بتاتا ہوں ساری بات ۔(اس نے نرمی سے کہا)

ابھی بتاو ( اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جہانگیر کا گالا دبا دے)

اس نے کال کٹ کردی ۔)ہیلو ہیلو۔۔۔(تصبیہا نے کہا مگر کال کٹ ہو چکی تھی ۔پھر ایک میسج آیا جس میں ایک ہوٹل کا ایڈریس اور ٹائم لکھا تھا)

تصبیہا کی سجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے جانا چاہیے یا نہیں ۔۔۔۔وہ شاہ کہ پاس گئی اور اسے سب بتا دیا )

کیا یہ سب جہانگیر نے کیا ہے ۔میں اسے چھوڑوگا نہیں آپی َ( وہ غصۓ سے بولا )

نہیں تم کچھ نہیں کرو گے۔ میں نے تمہیں یہ اس لیے نہیں بتایا ہے کہ تم کچھ الٹا سیدھا کر ۔بلکہ اس لیے بتایا ہے کہ کوئی تو ہو جیسے ساری بات بتا ہو اگر کچھ ہو جائے تو تم اسے سمبھال لو ۔۔(شاہ کو اس کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں )

تو کیا آپ جانے کا سوچ رہی ہیں ؟ (شاہ نے تصبیہا نے پوچھا )

ہاں جاوں گی ۔پتا تو کروں کے وہ کیوں کررہا ہے ۔(تصبیہا نے مضبوط لہجے میں کہا)

میں بھی ساتھ چلوں گا۔۔(اس نے ضدی بچے کی طرح کہا)

نہیں ۔۔۔ میں اکیلے ہی جاوں گی۔۔(تصبیہا نے نرمی سے اسے سمجھایا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گاڑی سے اتری تو جہانگیر وہیں کھڑا تھا ۔تصبیہا کو دیکھ کر مسکرایا اور اس کہ پاس آیا ۔
کیسی ہیں تصبیہا ؟(اس تصبیہا کا حال پوچھا ۔تصبیہا نے اسے گھورا اور آگے بڑھ گئی )

وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔جہانگیر اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں محبت تھی جبکہ دیکھ تو تصبیہا بھی اسے رہی تھی مگر اس کی آنکھوں نفرت ہی نفرت تھی اس کہ لیے )

کیوں کیا تم نے موصب کہ ساتھ ایسا؟ (تصبیہا نے غراتے ہوئے پوچھا)

تمہاری وجہ سے ۔۔(اس نے سکون سے جواب دیا)

کیا مطلب ؟

میں تم دونوں کو ساتھ نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔میں تم سے محبت کرتا ہوں ،تمہیں اپنا بنانا چاہتا ہوں ۔۔(اس نے آخر کہہ ہی دیا تصبیہا سے )

اس کی بات سن کر تصبیہا کا چہرا غصے سے لال ہوگیا۔۔اس نے اپنی مٹھیاں بیچ لیں ۔۔۔)

وہ رکا پھر بولنا شروع کیا)

تمہیں اسے چھوڑنا ہوگا ۔۔۔اگر چاہتی ہو کہ وہ باعزت باہر آجائے تو تمہیں اس پیپر پر سائن کرنے ہونگے ۔۔۔(اس نے کہہ کر ایک پیپر اس کہ آگے کیا ۔۔تصبیہا نے جب اس پر نظر ڈالی تو وہ خولا کہ پیپرز تھے ۔۔)

دل تو چارہا ہے کہ اتنی زور سے تمہارے منہ پر تھپڑ مارہ کہ پانچوں انگیاں چھپ جاہیں ( اس نے انتہائی غصے سے کہا)

اس کی بات سن کر جہانگیر مسکرانے لگا ،اس کو مسکراتا دیکھ تصبیہا کو آگ ہی لگ گئی اس نے جہانگیر کہ ہاتھ سے پیپرز لیے اور تکڑے تکڑے کردیے۔)

لگتا ہے تم اسے سلا خوں سے باہر نہیں دیکھنا چاہیتں وگرنا ایسا نہیں کرتیں ۔۔(اس نے تصبیہا کی اس حرکت پر کہا)

لگتا ہے تمہیں اپنی زندگی سے پیار نہیں ہے اس لیے ایسی بکواس کررہے ہو۔۔(تصبیہا نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا)

تمہیں آنا پڑے گا میرے پاس ۔۔(اس نے تصبیہا کو چیلنج کیا)

تصبیہا نے اپنا بیگ اٹھایا اور وہاں سے چلی گئی مگر سارے راستے اس کی باتیں دماغ میں گھوم رہیں تھیں ۔۔اس کے گھر آتے ہی شاہ نے اس سے پوچھا تو اس نے کھچ نہیں بتایا بس بولی)

مجھے موصب کہ پاس جانا ہے ۔پلیز لے چلو ۔۔(اس نے شاہ سے ریکوسٹ کی )

کیا؟ وہ لڑکیوں کہ جانے کی جگہ نہیں ہے ۔اور اگر میں آپ کو لے بھی گیا تو بھائی مجھے جان سے مار دے گا۔۔(اس نے تصبیہا کو سمجھانا چاہا)

مجھے کچھ نہیں پتا ۔مجھے جانا ہے ۔اگر تم نہیں لے کر گئے تو میں خود چلی جاوں گی ۔۔(اس نے غصے سے کہا تو شاہ کو منانا ہی پڑا ورنہ تصبیہا کا بھروسہ نہیں تھا وہ چلی بھی جاتی۔)

   1
0 Comments